۔تحریر ادعیہ وہاج جدہ ۔
برصغیر پاک و ہند میں جنم لینے والی عظیم ہستیوں میں ایک نام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا بھی ہے جنہیں اہلِ پاک و ہند مفکر پاکستان اور شاعرِ مشرق کے نام سے مانتے اور جانتے ہیں اور آج کی محفل حکیم الامت علامہ اقبال کی نسبت سے لائق تحسین ہے۰ علامہ اقبال کی حیثیت ہماری ملی تاریخ میں سنگ میل کی سی ہے برصغیر میں اقبال وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہمیں تہذیبی سطح پر وہ شعور دیا جو قوموں کی زندگی ، بقا اور تسلسل کے لیے اذحد ضروری ہوتا ہے۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ بطور قوم ہم نے اقبال کا تذکرہ ماند نہیں پڑنے دیا۔ اقبال ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔آپ کی ہمدردیاں اتنی وسیع ہیں کہ ان میں تمام دنیا کے انسان بلا امتیاز نسل و ملک سما جاتے ہیں۔آپ عظمت،انسانی کے علمبردار ہیں۔اسی لیے اقبال کو مشرق و مغرب میں یکساں عزت حاصل ہے۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی فکر اور رہنمائی قیام پاکستان کی اساس ہے جس کا اعتراف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی کیا۔ نسل نو کو کبھی بھی ایک مربوط اور منظم انداز سے فکر اقبال سے روشناس کروانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں ہمیں جن بڑھتے ہوۓ چیلنجوں کا سامنا ہے اس کا حل نسل نو میں ایک مربوط اور منظم انداز سے فکر اقبال کو روشناس کروانے سے کسی حد تک حل کیا جاسکتا ہے ہم اقبال کا تذکرہ صرف رسمی حد تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ لازماً فکر اقبال کو اپنے قومی نظام تعلیم و تربیت کا حصہ بنانا ہوگا اب سوچنا اس امر پر ہے کہ اس کا آغاز کہاں سے ہو اس کے لیے ہمیں اقبال کی کم از کم وہ تحریریں جو ہمہ وقت ان کی فکر کی نمائیندہ ہونے کے ساتھ ہی ہمارے موجودہ حالات سے بھی متعلق ہیں وہ ہمارے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں ۔ ان میں تین تحریریں نمایاں ہیں :خطبہ الہ آباد، ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر اور اسلام اور قومیت۔
خطبہ الہ آباد وہ دستاویز ہے جس میں اسلام کا اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام ایک وحدت پر واضح ہے اور اس تحریر نے ہندوستان میں ایک آزاد اور الگ مسلم مملکت کے قیام کی نظریاتی ، دستوری اور عملی بنیادیں فراہم کیں۔ اقبال نے دور جدید میں مسلم تہذیب کی تقدیر کو ایک آزاد اور الگ مسلم ریاست کے قیام سے منسلک کرتے ہوئے قرار دیا کہ اسلام خود ایک تقدیر ہے اور اسے کسی دوسرے تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۰ خطبہ الہ آباد حقیقتاً مسلم تہذیب، مسلم سیاست اور بحیثیت ملت اس کے سیاسی مستقبل کی تفہیم کی ایسی دستاویز ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اپنی اس بصیرت کی بنیاد پر اقبال نے اسلام کو مسلمانوں کی بقا کی اساس قرار دیا ہے. علامہ اقبال کی دوسری تحریر ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ہے۔ اس تحریر کی اہمیت موجودہ حالات کے پیش نظر زیادہ اہم ہے
قوم کیا ہوتی ہے اور کس طرح وجود میں آتی ہے۔ اور پاکستانی قوم بطور قوم کیا ہے اس کے اجزائے ترکیبی کونسی ہیں ان معاملات کو ہمیشہ کے لیے حل کردینے کی ضرورت ہے تحریر ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں اقبال فرماتے ہیں کہ مسلم قوم کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی تمدن کی یک رنگی اور مسلمانوں کی اس سیرت کا نمونہ جو مسلمانوں کے قومی وجود کے تسلسل کے لیے لازمی ہے جیسے امور کو زیر غور لایا جانا ہوگا اور قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصول اشتراک زبان ہے نا اشتراک وطن اور نا ہی اشتراک اغراض اقتصادی ہے بلکہ ہم سب اس برادری کا حصہ ہیں جو رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی۔ قومیت کے جدید تصور نے بین الاقوامی سطح پر قوموں میں غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ اس سے پولیٹیکل سازشوں اور منصوبہ بازیوں کا بازار گرم ہوتا دیکھائی دیا ہے جبکہ اسلام دنیا میں اس طرح کے ہر شرک جلی و خفی کے خاتمے کے لیے آیا ہے اس تحریر میں اقبال نے اسلامی تمدن کی یک رنگی اور یکسانیت کو زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کے کارناموں کے ساتھ واضح کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ ہمیں ایسا اجتماعی کردار تشکیل دینا ہے جو ہمارے قومی وجود کے تسلسل کا باعث ہو
اقبال فرماتے ہیں کہ
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
اقبال کی تیسری اہم تحریر ’اسلام اور قومیت ‘ہے۔ قومی سطح پر خلفشارکے موجودہ ماحول میں اس تحریر کی وہی اہمیت ہے جو ایک بیمار مریض کے لیے دوا کی ہے ۔ اس تحریر میں علامہ نے اسلام کے بنیادی سرچشموں کی روشنی میں مسلمان قوم کے اجتماعی وجود کے تعین کا حق ادا کر دیا ہے۔
علامہ فرماتے ہیں کہ مسلمان قوم ایک وحدت ہے۔ اور یہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں کہ یہ دینی و شرعی لحاظ سے تو قوانین الہی کی پابند ہو مگر ملکی اور وطنی لحاظ سے کسی ایسے دستور عمل کی پابند ہو جو ملی دستور ی اصول سے مختلف بھی ہو ۔ بلکہ مسلمان قوم تو ایک ایسی ملت ہے جس میں قبیلہ، رنگ و نسل، زبان، وطن اور اس طرح کے ہزارہا پہلوﺅں سے بالاتر ہو کر تمام افراد و گروہ یکجان و یک وجود ہوگئے ہیں۔ گویا ملت یا امت اقوام کی جاذب ہے اور خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی۰