تحریر۔ادعیہ سعودی عرب۔
ہمیشہ کی طرح آج پھر گھر سے نکلتے سمے دُعا کے شوہر کے ماتھے پر بل اور فرمان جاری کرتے ہوۓ ۰۰۰ یہ کیا ہے اتنے بڑے دوپٹّے کی کیا ضرورت ہے ؟ ادھر لاؤ مجھے دو بھلا دوپٹّے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ دُعا ہمیشہ کی طرح اپنے مجازی خدا کی اس خواہش پر ششدر خاموشی سے سُبک رفتاری کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جانے میں ہی عافیت جانی۰ دُعا کی گُھٹّی میں کسی کے بھی طیش کے جواب میں خاموشی کی چادر کو لپیٹے رکھنا رچا بسا تھا مگر کب تلک ؟ یہ شاید وہ بھی نہیں جانتی تھی۰ جس طرح تیز آندھی، طوفان اور تیز ہواؤں کے جھّکڑ مضبوط سے مضبوط تر درخت کو بھی جڑ سے اُکھاڑ پھینکتے ہیں اسی طرح انسان کی گُھٹّی اس کی تربیت میں سکھائے گئے تمام سبق بھی بسا اوقات حالات کے زیرِ نظر ہوجاتے ہیں۰
دُعا کی زندگی بھی حالات کی اُونچ نیچ کے ساتھ اچھی بھلی بحکم ربّی گزر رہی تھی اور اب اُس کی بیٹی ہر بات پر سوالات کرنے کی عُمر میں پہنچ چکی تھی۰ آج چُھٹی کے روز ہمیشہ کی طرح اس کے سسرال میں سب جمع تھے اور چھٹی والا دن کچن دُعا کا قبلہ۰ دُعا اپنے قبلے کی طرف منہ کیے ہوئے کاموں میں جُتی ہوئی تھی کہ اس کی بیٹی نے آکر منجھلی پھپھو کی آمد کی خبر دیتے ساتھ ہی کہا اماں دیکھیں آکر پھپھو کتنی پیاری لگ رہیں بیٹی نے یہ کہتے ساتھ ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی جس کا ایک بھی جواب دعا کے پاس نا تھا اماں پھپھو نے دوپٹہ نہیں پہنا آپ کیوں پہنتی ہیں ؟ بابا بھی آپکو منع کرتے ہیں ڈانٹتے ہیں آپ بابا کی یہ بات کیوں نہیں سُنتیں اماں ؟ ہم بھی باہر جارہے تھے اس دن بابا آپ سے کہہ رہے تھے نا پہنو دوپٹّہ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم باہر جا رہے بیٹا دوپٹہ اُڑھنا ضروری ہوتا ہے گھر سے نکلتے وقت تو اماں پھپھو بھی تو ابھی باہر سے آئیں ہیں انھوں نے کیوں نہیں پہنا دوپٹہ ؟ اور میں نے ان تمام سوالات کے جواب میں ہمیشہ کی طرح اسکو اورینج ٹینگ کا جگ اور گلاس کے ٹرے تمھماتے ہوۓ سب کو طریقے سے سرو کرنے کی تاکید کی۰ بحکم ربّی زندگی کے شب و روز گزرتے جارہے تھے کہ ایک دن اور دعا کا دوپٹہ اسکے اور شوہر کے بیچ وجۂ بد مزگی بن گیا ہمیشہ کی طرح ازانِ کی آواز سُنتے ہی دعا نے سر پر دوپٹہ رکھا زیرِ لب دعائیں دہرانے لگی جس پر شوہر کا خوشگوار موڈ تبدیل ہونے لگا اور وہ بڑبڑاتے ہوۓ دعا کا ازان پر دعائیں پڑھنے پر تمسخر اڑانے لگے ازان کے ختم ہونے پر دعا نے اپنے سر سے دوپٹہ سرکایا تو غلطی سے شوہر صاحب جو کہ گئیر لگا رہے تھے ان کے ہاتھ اور گئیر کے بیچ آگیا بیچارے دوپٹّے کا کونا آن ٹپکا اور پھر کیا تھا تیز آواز ماتھے پر بل کے ساتھ شوہر صاحب اُتار و اسے ادھر لاؤ مجھے دو یہ دوپٹہ دو ادھر دو مجھے اور آناً فاناً گاڑی سائیڈ پر روکتے ہوئے گاڑی میں پیچھے بیٹی بھی بیٹھی ہے اس بات کی پروا کئیے بغیر لاؤ دو مجھے میں کہہ رہا ہوں کب سے اور یہ کہتے ہوۓ ہاتھ دعا کے دوپٹّے پر تھا دعا کے گلے سے دوپٹہ رگڑتا ہوا لپیٹ کر بال نما شکل میں آکر اب گاڑی کی ڈگی میں تھا اور ایک بار پھر دونوں میاں بیوی کے بیچ یہ دوپٹہ وجۂ بدمزگی ٹھہرا ۰
گزرتے شب و روز میں ایک دن پھر بیٹی نے ماں پر سوالات کر بوچھاڑ کردی اماں آپ کو بابا ٹھیک کہتے ہیں آپ بہت دقیانوسی ہیں ، آپ پہلے گاؤں میں رہتیں تھیں کیا؟ نانو ماموں آپ سب گاؤں سے آئیں ہیں کیا؟ ماموں نانو آپ سب کو دوپٹہ کی فکر ادھر پھپھو کبھی دوپٹہ اُڑھتیں ہیں کبھی نہیں اُڑھتیں دادو بھی کچھ نہیں کہتیں اُن کو اور ایک بار پھر دُعا کے پاس بیٹی کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا اور اب آۓ دن دعا کا بار بار شوہر اور بیٹی کے منہ سے یہ سننا کہ وہ گاؤں سے آئی ہے دقیانوسی ہے اولڈ فیشن ہے اس کے گھر والے گاؤں میں رہتے تھے پہلے یہ سب معمولِ زندگی بن چکا تھا۰ الحمداللہ رب العالمین دن گزرتے گئے اور اب دُعا کی بیٹی جوانی کی دھلیز پر قدم رکھنے لگی اور وہی شخص جو دُعا کا شوہر ہے بیٹی کے باپ کے روپ میں آۓ دن اپنے خیالات بدلنے لگ گیا اور اُسی بیٹی کو جو بچپن سے اپنی ماں کے “دوپٹّے” کی عزت افزائی دیکھتے ہوۓ بڑی ہوئی ہے اپنی بیٹی کو اُسی بیچارے “دوپٹّے” کو اہمیت دینے پر بضد رہنے لگا اور اکثر اوقات بات یہاں تلک آجاتی کے اسکارف سَر پر لو ورنہ میں باہر لے کر نہیں جاؤں گا، دُعا اسکو کہو دوپٹہ لے پھر باہر جائیں گے۰ بیٹی باپ سے لے لیا ہے بابا اسکارف میں نے ۰۰ باپ گاڑی سے اُترتے سمے بیٹی سے سَر پر لو اسکارف ۰ بیٹی نہیں بابا سَر پر نہیں لوں گی بس ایسے ہی ٹھیک ہے گلے میں ۰ اور پھر وہی ماتھے پر بل اور غصہ گاڑی میں بیٹھو گھر چلو واپس.
اکثر شوہر حضرات یہ بات کیوں بھول جاتے کہ آپ کی بیوی بھی کسی کی بیٹی اور بہن ہے